Tafeemul Quran Ka Ilmi Aur Tehqeeqi jaiza تفہیم
القرآن کا علمی اور تحقیقی جائزہ
۱۔ قرآن کے لفظی ترجمے روح قرآن سے خالی ہیں(تفہیم القرآن،ج۱،ص۷)
۔رحمان اور رحیم کی مثال ایسی ہے جیسے سخی داتا، گورہ چٹا، لمباتڑنگا۔ اسم رحمان کی کمی کو پورہ کرنے کے لئے رحیم کا اضافہ کیا گیا ہے
۔الم کی تشریح میں لکھتے ہیں" حروف مقطّعات کوئی چیستان نہ تھے
حضرت عیسیٰؑ کا رفع الی اسماء قرآن سے ثابت نہیں ہے
تفہیم القرآن، ج۱،ص۴۲۰
حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں مودودی صاحب لکھتے ہیں "بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں تنبیہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض اس لئے اپنا سمجھنا کو وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے تو وہ اپنے دل سے بے پرواہ ہو کر اس طرز فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے" ۔( تفہیم القرآن،ج۲،ص۳۴۴،طبع سوم،۱۹۶۴ء)
" حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں۔ گالباً انہوں نے بے صبر ہوکر قبل از وقت اپنا مستقر بھی چھوڑ دیا تھا" ۔ (تفہیم القرآن،ج۲،ص۳۱۲،طبع سوم،۱۹۶۴ء)
۱۔ قرآن کے لفظی ترجمے روح قرآن سے خالی ہیں(تفہیم القرآن،ج۱،ص۷)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ کا ترجمہ سب مفصر یہی کرتے ہیں کہ" شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے" لیکن مودودی صاحب اس سے ہٹکر لکھتے ہیں اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے
الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کا ترجمہ ہے" تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے" لیکن مودودی صاحب لکھتے ہیں " تعریف اللہ کے لئے ہے۔رحمان اور رحیم کی مثال ایسی ہے جیسے سخی داتا، گورہ چٹا، لمباتڑنگا۔ اسم رحمان کی کمی کو پورہ کرنے کے لئے رحیم کا اضافہ کیا گیا ہے
۔الم کی تشریح میں لکھتے ہیں" حروف مقطّعات کوئی چیستان نہ تھے
حضرت عیسیٰؑ کا رفع الی اسماء قرآن سے ثابت نہیں ہے
تفہیم القرآن، ج۱،ص۴۲۰
حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں مودودی صاحب لکھتے ہیں "بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں تنبیہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض اس لئے اپنا سمجھنا کو وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے تو وہ اپنے دل سے بے پرواہ ہو کر اس طرز فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے" ۔( تفہیم القرآن،ج۲،ص۳۴۴،طبع سوم،۱۹۶۴ء)
" حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں۔ گالباً انہوں نے بے صبر ہوکر قبل از وقت اپنا مستقر بھی چھوڑ دیا تھا" ۔ (تفہیم القرآن،ج۲،ص۳۱۲،طبع سوم،۱۹۶۴ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں